Sunday 3 January 2016

شاکر شجاع آبادی

Shaki Shujaabadi
Shakir Shujabadi

شاکر شجاع آبادی جب کسی مشاعرے میں شامل ہوں توحاضرین سے صبر نہیں ہوتا ، ان کے نام کا نعرہ لگناشروع ہوجاتا ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ اس موقع پراسٹیج سیکریٹری انہیں چند منٹ کے لیے ڈائس پر مدعوکرتے ہیں۔ اور شاکر فرمائشی اشعار سنا کر واپس اپنی نشست تشریف لاجاتے ہیںاس وعدہ کے ساتھ کہ وہ دوبارہ پڑھنے کے لیے آئیں گے ۔شاکر کی شاعری زبان زدِعام ہوگئی۔ ہندوستان، کینیڈا اور امریکا ، یورپ جاپان، ناروے سمیت دنیا بھرمیں شاکر کی شاعری مقبول ہے۔”شاکر کا جادو چل گیا،، اوروہ مقبولیت کے گراف پر پہلے نمبروں پر آگئے، جس کے ساتھ ہی ان کی کتابوں کی فروخت میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا۔ پبلشروں نے ان کی ایک درجن سے زیادہ کتابیں شائع کیں۔ان کی مقبول کتابوں میں لہو دا عرق، پیلے پتر، بلدین ہنجو، منافقاں تو خدا بچاوے، روسیں تو ڈھاڑیں مار مار کے اور گلاب سارے تمہیں مبارک، شامل ہیں۔ 2007ء میں انہیں پرائیڈ آف پرفارمنس کے اعزاز سے بھی نوازا گیا۔شعرو شاعری کے چوبیس برسوں کے دوران شاکر نے ہزاروں ڈوہرے، قطعات، گیت ، غزلیںاور کافی نظمیں لکھیں۔وہ اپنی پیدائش کے بعدہی سے چلنے پھرنے میں خرابی کا شکار تھے۔یہ عوامی شاعر بارہ برسوں سے چلنے پھرنے سے اب قاصر ہے۔انہیں سر اور گردن کی حرکت میں دشواری کا سامنا بھی ہے۔شاکر کی بیماری کی خبر جب میڈیا نے دی اور پھر ایک تسلسل کے ساتھ اس فالواپ بھی ہوا تو حکومتی ارباب واختیار نے اس کا نوٹس لیا۔وزیر اعلی میاں محمد شہباز شریف کی ہدایات پر اب ان کا سرکاری خرچ پر علاج ہورہا ہے۔ڈاکٹروں کی ٹیم (بورڈ) بھی بنا دی گئی ہے۔بہتر علاج سے شاکر کی طبیعت تو سبھل گئی ہے مگر وہ مکمل صحت یاب نہیں ہیں۔

فروری 2014ء میں وزیراعظم نواز شریف نے شاکر کے لیے ایک ملازمت، ماہانہ وظیفے اور ایک گھر کا اعلان کیا تھا۔ اس عظیم عوامی شاعر جو قوم کا اثاثہ ہیں کے لیے یوم شاعری کے عالمی دن کے موقع پر ضروری ہے کہ وزیراعلیٰ میاں محمدشہباز شریف نے جوپچیس ہزار روپے کے ماہوار وظیفے کا اعلان کیا تھا اور ایک بار اس کی ادائیگی بھی ہوئی۔ اس وظیفے میں اضافہ کرتے ہوئے سابقہ وظیفہ جات کی یکمشت ادائیگی کی جائے۔شاکر کی مکمل صحت یابی تک ان کاعلاج سرکاری خرچ پر کرایا جائے۔شاکر شجاع آبادی کے بیٹے کو سرکاری ملازمت دی جائے۔ تاکہ ان کے گھروالوں ایک مستقل روز گار کا بندوبست ہوسکے۔ ان کے چاہنے والے ان کی مکمل صحت یابی کے لیے دعاگو ہیں۔

No comments:

Post a Comment